Television Essay in Urdu


Television Essay in Urdu
ٹیلی وِژن اُردو مضمون


”ٹیلی وِژن“ دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ٹیلی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی فاصلہ کے ہیں اور ”وِژن“ سے مراد وہ آلہ ہے جس کے ذریعے ہم دور سے بیٹھ کر نظارہ کر سکتے ہیں۔آج یہ لفظ انگریزی اور اُردو دونوں میں شامل ہے اورعام طور پر اسے ”ٹی-وی“ کہا جاتا ہے جو ٹیلی وِیژن کا مخفف ہے۔
آج سےسو سال قبل اگر کوئی آدمی یہ بات کرتا کہ فلاں آدمی کی آواز پشاور سے ملتان سنائی دے تو سبھی اس کو مذاق سمجھتے مگر آج یہ چیز مذاق نہیں رہی،حقیقت بن گئی ہے۔یہ ریڈیو سے ممکن ہوا اور ریڈیو کی ترقی یافتہ شکل ٹیلی وِژن ہے جو نہ صرف آواز بلکہ تصویر بھی پیش کرتا ہے۔
ٹی – وی اسٹیشن پر اگر کوئی شخص خبریں پڑھ رہا ہے تو ہم نہ صرف اس کی آواز بلکہ شکل اور حرکات کو بھی دیکھتے ہیں۔اس عجیب و غریب ایجاد کا سہرا امریکی موجد فاعلو ٹیلر فرنس ورتھ کے سر تھا۔
ایک جگہ انہوں نے خود لکھا کہ میں ایک کیمرے کا تجربہ کر رہا تھا کہ ایک گڑیا کا عکس مجھے دوسرے کمرے میں دکھائی دیا۔میں نے اپنے ایک ملازم کو شعاعوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔پہلے تو وہ راضی نہ ہوا مگر  انعام کے لالچ میں وہ کھڑا ہوا تو اس کا عکس مجھے دوسرے کمرے میں دکھائی دیا۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ٹیلی وِژن کا تجربہ 1915ء میں کامیاب ہوا۔جان لوئی نے اس کو جاری رکھا۔ٹیلی وِژن کیمرے کی مدد سے تصویر کو دوردراز علاقوں میں دکھانے لگا۔
یہاں تک کہ فروری 1928ء میں لندن سے امریکہ پروگرام دکھائے گئے اور ٹیلی وِژن نے بحرِ اوقیانوس کو عبور کیا۔ٹیلی وِژن پہلے پہل مہنگا تھا مگر آج کل یہ ایک سستی تفریح بن چکا ہے۔آپ گھر میں بیٹھے ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں،حالاتِ حاضرہ سے متعلق علم رکھتے ہیں،گانے سنتے ہیں،فلمیں دیکھتے ہیں،کھیلوں کے پروگرام دیکھتے ہیں اور تو اور اب پڑھائی بھی ٹیلی وِژن کےذریعے ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ ٹی-وی پر مذہبی،اصلاحی،تفریحی اور کئی طرح کے معلوماتی پروگرام مسلسل دکھائے جاتے ہیں۔پاکستان میں ٹی وی کا آغاز 1964ء میں ہوا۔آج کل اس کا رواج اس قدر پڑھ گیا ہے کہ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں ٹیلی وِژن موجود نہ ہو۔
ٹی وی سے نہ صرف پڑھے لکھے لوگ بلکہ اَن پڑھ طبقہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اگر کوئی اخبارات و رسائل نہیں پڑھ سکتا تو ٹی وی سے وہ معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

Television Essay in Urdu
Television Essay in Urdu

Tags