”یہ کلمات صبح و شام ایک مرتبہ پڑھ لو موت آتے ہی جنت چلے جاؤ گے۔“
آپ ﷺ نے فرمایا جس نے صبح شام صدق دل سے سید الاستغفار کو پڑھا اور اسی دن یا رات فوت ہو گیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اب آپ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے بخشش کے کتنے سامان کئے ہیں ایک چیز کرلو دوسری کر لوتیسری کر لو یعنی یہی اس کی رحمت ہے کہ اس نے چھوڑا نہیں بھٹکنے کے لئے یا اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن اگر بندے خود ہی غفلت کا شکار رہیں اور کسی بھی چیز سے فائدہ نہ اُٹھائیں تو پھر اللہ تعالیٰ جبر نہیں کرتا ۔ استغفار کرنے کے سب سے افضل ترین الفاظ میں سب سے پہلے سید الاستغفار کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان الفاظ کو سید الاستغفار سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو:
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ إِلاَّ أَنْتَ یعنی: یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں،
میں تیرے حضور تیری مجھ پر ہونیوالی نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے آپ نے فرمایا: جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت اسے پڑھا، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اسکی موت ہوگئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جس شخص نے اسے رات کے وقت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا چنانچہ یہ دونوں دعائیں اپنے اپنے مخصوص اوقات میں افضل اور بہتر ہیں، لہذا جو شخص کسی مشکل اور مصیبت میں پھنسا ہو ا ہو تو اس کیلئے ذو النون یعنی یونس علیہ السلام کی دعا افضل ہے، اور جو شخص اللہ تعالی سے گناہوں کی بخشش چاہتا ہے تو سید الاستغفار اس کیلئے زیادہ افضل ہے۔
سا اوقات مفضول ذکر فضیلت والے ذکر سے بھی افضل ہو سکتا ہے، اسی طرح مفضول ذکرایسے شخص کے لئے افضل ہے جو اس کی استطاعت رکھنے والا ہو اور اسے پڑھ کر استفادہ کرتا ہو، جبکہ جس ذکر کو کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو چاہے وہ ذکر فضیلت والا ہے، لیکن اس کیلئے وہ افضل نہیں ہےاجمالی طور پر تلاوت قرآن ذکر سے افضل ہے،اور ذکر دعا سے افضل ہے؛ لیکن بسا اوقات مفضول عمل فضیلت والے اعمال سے بھی افضل ہو سکتا ہے، جیسے کہ نماز ان تمام امور سے افضل ہے، لیکن دوسری طرف تلاوت قرآن، ذکر، اور دعا کرنا پانچ ممنوعہ اوقات میں اور خطبہ کے وقت نماز سےزیادہ افضل ہیں، اسی طرح رکوع و سجود کے دوران تسبیح تلاوت قرآن سے افضل ہے، اور آخری تشہد ذکر سے افضل ہے۔
اور ایسے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخصوص حالات کے باعث مفضول سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں، یعنی: قلبی میلان، شرح صدر، اور بدنی استطاعت اس مفضول کام کیلئے مہیا ہوتی ہے، مثلاً: کچھ لوگ ذکر کیلئے ہمت تلاوت قرآن سے زیادہ رکھتے ہیں، چنانچہ جو عمل کامل ترین صورت میں ادا ہو گا وہ عمل ایسے اعمال کی بنسبت لوگوں کیلئے زیادہ فضیلت والا ہوگا، جو کامل ترین صورت میں ادا نہ ہو، اور اگر چہ ناقص ادا شدہ عمل کامل ادا شدہ عمل سے حقیقت میں افضل ہی ہو گا ، اور بسا اوقات انسان افضل عمل کرنے سے عاجز ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں انسانی وسعت میں موجود عمل ایسے شخص کیلئے افضل قرار پائے گا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین