Beti rehmat ya zehmat essay mazmoon in urdu
اسلام سے پہلے یعنی زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکیوں کو اس طرح نیچ سمجھتے تھے کہ کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ شرم سے منہ چھپا لیتے تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
کچھ لوگ ایسے تھے کہ بیٹی پیدا ہوتے ہی دفنا دیتے تھے۔لوگ لڑکی کی پیدائش کے بجائے لڑکی کی وفات پر مبارک باد دیتے تھے۔قرآن پاک نے ایسے لوگوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
”اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے،لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کسی کو کیا منہ دکھائے۔سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رکھے یا مٹی میں دبا دے۔“
ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بیٹی کی آمد کو خوشگوار نہیں سمجھتے بلکہ اس پر رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ تو باقاعدہ آنسو بہاتے ہیں اور مبارک باد کہنے کے بجائے باقاعدہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ لوگ بیٹی کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔بیٹیوں کو ہر معاملے میں بیٹوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔آخر گھر کے کام کاج ہی کرنے ہیں۔ان کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔
اچھا لباس،اچھی خوراک اور دیگر ضروریات زندگی میں بھی لڑکیوں کی بجائے لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور بیٹے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
لوگ بیٹے کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج کے مسلمان زمانہ جاہلیت کے لوگوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔حالانکہ کہ جس گھر میں بیٹی نہ ہو' اس گھر میں رحمت نہیں ہوتی۔یعنی بیٹی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت ہے۔حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
”جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتے بھیجتے ہیں جو کہتے ہیں،اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو پھر اس بچی کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں:ضعیف ہو،ضعیف سے پیدا ہوئی ہو،قیامت تک اس کے کفیل کی مدد کی جائے گی۔“
جو لوگ بیٹی کے پیدا ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں انہیں اس فضیلت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ہمارے پیارے نبیﷺ کا ایک اور ارشاد ہے:
”جس آدمی کو بچیاں عنایت ہو گئیں پھر اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو یہ بچیاں آگ(جہنم) اور اس آدمی کے درمیان رکاوٹ بن جائیں گی۔“
جو لوگ اپنے بیٹوں کی کثرت پر ناز کرتے ہیں،انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔اس بات پر بلاوجہ تکبر و غرور کرنے کے بجائے اس ذات کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا۔کیونکہ یہ تو اللہ کی دین ہے۔
کسی کا اس پر کوئی دخل نہیں۔کسی لڑکے یا لڑکی کی آمد انسان کی اپنی پسند یا ناپسند سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اور صرف اللہ کی عطا ہوتی ہےاور پھر جو اجرو ثواب لڑکیوں کی پرورش اور ان کے ساتھ اچھے سلوک میں ہے ' وہ لڑکوں کی پرورش میں نہیں۔
کیونکہ بیٹوں کی پرورش میں انسان کی اپنی خودغرضی شامل ہوتی ہے کہ بیٹا بڑا ہو کر بڑھاپے کا سہارا بنے گا جب کہ بیٹیوں کی پرورش خالص اللہ کی رضا اور جنت کا ذریعہ سمجھ کر کی جاتی ہے۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جو شخص تین لڑکیوں کی پرورش کر رہا ہو،وہ جنت میں جائے گا۔“سننے والوں نے دریافت کیا کہ وہ اگر دو ہوں؟آپؐ نے فرمایا”ہاںوہ بھی“
پھر انہوں نے پوچھا”اگر ایک ہو؟“تو آپؐ نے فرمایا”ہاں ایک ہو تو بھی“
نبی کریمﷺ کے ان فرامین سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بیٹیاں والدین کے لیے جنت میں جانے کا ذریعہ ہیں۔بیٹیاں آخرت میں والدین کی بخشش کا سامان ہیں۔پھر اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بعض والدین اپنی ہی بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کرتے ہیں؟کیوں ان کی پیدائش پر سوگ مناتے ہیں؟
حالانکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:”تمہاری اولاد میں سب سے بہتر گھر میں رہنے والی لڑکیاں ہیں۔“مگر اس کے باوجود ہم میں سے اکثر لڑکیوں کو رحمت کی بجائے زحمت اور نحوست کی علامت سمجھتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ صحت مند ماں ہی صحت مند معاشرے کو جنم دے سکتی ہےلیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی بیٹیوں کو رحمت سمجھیں،ان کی آمد پر ان کا خوش دلی سے استقبال کریں،ان کی اس طریقے سے دیکھ بھال کریں کہ وہ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں۔
ہمیں اپنی بچیوں کی بہترین طریقے سے پرورش کرنی چاہیے کیونکہ آج کی بچیاں ہی کل کی مائیں ہیں اور معاشرے میں خوشگوار تبدیلی انہی کی تعلیم و تربیت سے آسکتی ہے۔
![]() |
Beti rehmat ya zehmat essay mazmoon in urdu |