Zam Zam Urdu Essay Mazmoon in Urdu Hindi

Zam Zam Urdu Essay Mazmoon

زَم اُردو مضمون. . .زَم
آج سے ہزاروں سال پہلے کی بات ہے کہ جہاں آج مکہ مکرمہ کا متبرک شہر آباد ہے وہاں ریت اور سڑی ہوئی پہاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔دور دور تک کسی جان دار کا گمان تک نہ تھا۔


اسی زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی ہاجرہؑ اور اپنے ننھے چند روزہ بچے کو لے کر یہاں آئے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہاں چھوڑ کر چلے گئے۔
ماں اپنے ننھے شیر خوار کو لیے ایک پہاڑی کی اوٹ میں بیٹھ گئی۔سورج بلند ہوتا گیا۔دھوپ کی تیزی بڑھتی گئی۔زمین تپی ‘ ہوا جلی ‘ گرم لُو کے بھبوکے آنے لگے۔پانی کی چھاگل خشک ہونے لگی اور ذرا سی دیر میں سوکھ گئی۔ماں بچے کے ہونٹ سوکھے ‘پھر زبان خشک ہوئی۔ماں گھبرائی۔ننھا سسکنے لگا۔
ماں کے ہوش اڑ گئے۔اپنی پیاس بھول گئی۔بچے کی حالت دیکھ کر تڑپی۔اِدھر اُدھر دیکھا۔ریت کے ذروں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔اوپر دیکھا۔آسمان کو دُور پایا۔نیچے دیکھا۔زمین کو تنور پایا۔پانی پانی!ایک گھونٹ ایک قطرہ۔
میرے لیے نہیں۔میرے بچے کے لیے۔شِیر خوار اسماعیلؑ کے لیے!ابراہیمؑ کے خدا!اس جنگل میں ‘ اس بیابان میں ‘اس ریگستان میں ‘ آگ کو گلستان بنانے والے!اس آگ کے دریا میں پانی کا چشمہ بہا!میرے ننھے کو ایک پانی کا قطرہ عطا فرما۔اللہ میاں!مجھے اپنی جان کی پرواہ نہیں اس ننھی جان پر کرم فرما۔
بچہ پیاس سے بے ہوش ہو چکا تھا۔کبھی کبھی ٹانگیں ہلا دیتا۔ماں نے اپنے مُنھ سے لعاب نکال نکال کر اس کے مُنھ میں ڈالا ‘ مگر دن کی تمازت ختم ہو تو زندگی کی امید پیدا ہو۔
ذرا دیر کو بچے کے سانس کی حالت ٹھیک ہوتی ‘پھر وہی خشکی ‘رگیں تک خشک کر دیتی۔آخر بچے کی حالت نہایت نازک ہو گئی۔ماں دیکھ نہ سکی مضطربانہ اٹھی بچے کو زمین پر لٹایا ‘مروہ پہاڑی پر چڑھی۔بے تابی سے اِدھر اُدھر دیکھا۔پانی کا نشان تک نہ پایا۔
پھر صفا کی پہاڑی کی طرف بھاگی ‘ساتھ ساتھ بھاگتی جاتی تھی اور ساتھ ساتھ بچے کی طرف دیکھتی جاتی تھی کہ کوئی درندہ نقصان نہ پہنچائے۔اب ماں کی بے تابی کی حد نہ تھی۔وہ بے تاب تھی۔ہر طرف مایوسی کے سائے پھیلےہوئے تھے۔
کبھی بچے کو دیکھتی ‘کبھی آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتی ‘مگر ناکام واپس آتی۔اسی طرح پہاڑیوں پر دوڑ رہی تھی کہ چھے پھیرے مکمل ہو گئے۔ساتویں مرتبہ اللہ سے دعائیں کرتی ہوئی دوڑی اور واپس آئی تو دیکھا کہ بچے نے بے تابی سے جہاں ایڑیاں ماری اور رگڑی تھیں ‘وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ رہا ہے۔
حضرت ہاجرہؑ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔بچے کو پانی پلایا۔خود پیا اور چشمے کے گرد پتھروں کی مینڈ بنا دی اور فرمایا کہ زم زم یعنی اے پانی ٹھہر جا۔
اسی سے چشمے کا نام بھی ”زم زم“ہوا اور چشمے کا مقدس پانی”زم زم“ کہلایا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے شفا کا پیغام لایا۔عرب کے بدو پانی کی تلاش میں ریگستان کے ذرے ذرے کا مُنھ دیکھتے ہیں۔ایک بدو نے پانی پایا تو حضرت ہاجرہؑ سے پانی پینے اور اپنے اونٹ کو پلانے کی اجازت مانگی۔
آپؑ نے بڑی خوشی سے اجازت دے دی اور آخر وہ وہیں خیمہ لگا کر بیٹھ گیا۔پانی بڑے زوروں میں نکلتا رہا ‘بڑھتا رہا ‘پھیلتا رہا ‘صحرائی بدو آتے گئے اور اجازت پا کر چشمے کے گرد آباد ہوتے گئے حتیٰ کہ پہلے خیموں کا شہر بسا ‘پھرپتھروں کے مکانوں کا شہر آباد ہوا۔

Zam Zam Urdu Essay Mazmoon
Zam Zam Urdu Essay Mazmoon