Chah Aur Hasad Urdu Article By Sehar Sohail
اپنی پسندیدہ چیز کسی دوسرے کے پاس دیکھنا شاید دنیا کے کئ اور مشکل کاموں میں سے ایک ہے ۔
اور اگر اسے پانے والا کوئ اپنا ہو تو زیادہ تر لوگ خوش ہی ہوتے ہیں کہ چلو!وہ " ہمارے پاس نا سہی ہمارے کسی پیارے کے پاس ہی سہی۔"
لیکن کبھی کبھی اِس خوشی کے احساس کے ساتھ ایک اور احساس بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے "حسد۔" پہلے پہل تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اسے تو ہم ہمیشہ دوسروں میں ہی دیکھتے آیے ہیں اور خود سے فخریہ کہتے آیے ہیں "کہ شکر ہے ہم میں تو حسد نام تک کو نہیں۔" لیکن ہمیں خبر تک نہیں ہوتی کب یہ حسد ہم پر حاوی ہو جاتا ہے ۔اتنا کہ" ہم خود کو اسکے آگے ہار دیتے ہیں۔"
قرآنِ پاک میں "مخلوق کی شر سے پناہ مانگی گئ ہے۔" تو شر کسے کہتے ہیں؟
شاید کوئ بھی ایسی چیز جو برا اثر رکھتی ہواور مخلوق سے زیادہ برا اثر بھلا کس
کا ہو سکتا ہے؟ اور اگر قرآن تک میں اسکا ذکر آیا ہے تو اسکی آخرکوئ تو وجہ ہوگی اور انسان کو اللہ جی سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ میرے نزدیک حسد بھی ایک شر ہے۔ لیکن اس سے چھٹکارا پانے کے لیے اسکا ادراک ہونا ضروری ہے۔ حسد کیا ہے اور یہ کب ہوتا ہے؟
کوئ ایسی چیز جو آپ اپنے پاس چاہتے ہیں، جسکے ہونے کی آپکو چاہ ہے جب وہی چیز بآسانی آپ کسی دوسرے کو حاصل کرتا دیکھتے ہیں تو دل میں کہیں نہ کہیں یہ حسد اپنی جگہ بناناشروع کر دیتا ہے۔ چاہ ایک ایسی فیلنگ ہے جس پر انسان کا بس نہیں چلتا اور اسے لگتا ہے کہ بس کچھ ہو جائے اور وہ کسی طرح آپکی دسترس میں آجائے اور اسی چاہ کے چکر میں بعض اوقات انسان کچھ ایسا کر بیٹھتا ہے کہ اسے پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ حسد تو سب کو ہی ہوتا ہے یہ ایک انڈرسٹوڈ سی بات ہے اور جو کہتے ہیں کہ نہیں !! انہیں تو کسی سے نا جلن ہوتی ہے اور نا ہی وہ حسد جیسی فضول بیماری میں مبتلا ہیں
تودرحقیقت تو وہ خود ایک بہت بڑی غلط فہمی میں شکار ہیں۔"تو حسد سب کو ہی ہوتا ہے ۔ بس کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔" اس سے بچنے کے لیے اسکے ہونے کو ماننا ضروری ہے کیونکہ "انسان چاہے پوری دنیا سے جھوٹ بول لے لیکن اسکو کبھی کبھی ہی سہی خود سے ضرور سچ بولنا چاہیے۔" ماننے کے بعد خود کو کیسے اس سے بچایا جائے؟ خود میں سے ایسے احساس کو کیسے نکالا جائے جسکے بارے میں سالوں آپنے خود کو یہ یقین دلایا ہو کہ وہ تو آپ میں سرے سے ہےہی نہیں تو" برائ ماننے سے ہی ختم کی جا سکتی ہے ۔
" اگر بُرے کو بُرا ہی نا جانا جائے تو اسے ختم کرنے کی بھی کوئ تدبیر نہیں کی جا سکتی۔ ایسے میں خود کو اس بات کا یقین دلانا چاہیے کہ " ہاں اللہ جی ہیں اور وہ سب دیکھ رہے ہیں!اور وہ ہمارے لیے بہتر نہیں تو بہترین ہی کرینگے۔" اپنے دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لیں کہ اگر کچھ آپکے پاس نہیں ہے تو وہ اسی لیے کہ اسکا ہونا آپکے لیے کبھی لکھا ہی نہیں گیا!
وہ آپکا کبھی تھا ہی نہیں اسی لیے آپکے پاس نہیں ہے۔ جب یہ بات آپ مان لینگے تو زندگی بہتر اور پر سکون ہو جائے گی ۔ آسان نہیں! کہ اسے آسان بنایا ہی نہیں گیا یہ تو ایک آزمائش ہے اور "ہر آزمائش کا ایک اختتام ہوتا ہے۔" اسکی ایک صورت یہ ہے کہ آزمائش کا جو وقت تھا وہ اپنے مقصد کو پورا کر کے گزر گیا اور دوسرا یہ کہ وقت بھی گزر گیا اور اس سے ہم نے کچھ سیکھا بھی نہیں۔"غلط
حسد کرنا نہیں ہے بلکہ خود کو بھول جانا اور حسد کو یاد رکھنا یہ غلط ہے۔"
اسکے بارے میں ارشادﷺ ہے کہ "حسد انسان کو کھا جاتا ہے۔" بلکل ایسے جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ کبھی غور کیا ہے کہ جب دیمک لکڑی کھا جاتی ہے تو پیچھے کیا بچتا ہے؟ مٹی!! ہماری حقیقت بھی تو یہی ہے ہمیں بھی ایک دن مٹی ہی ہونا ہے۔تو یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم خود کو کس قابل بناتے
ہیں گیلی اور نرم مٹی کے جو دوسروں کو فائدہ دیتی ہے یا پھر
سخت ، خشک اور بنجر مٹی کے جو نا تو خود کو کوئ فائدہ دیتی ہے نا ہی کسی اور کو۔