یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے کہ سارے شہر میں آگ لگ گئی۔ آگ کے بلند بالا شعلے گھروں، باغوں اور دکانوں کو سوکھی لکڑیوں کی طرح جلانے لگے۔ آگ اس قدر تیزی سے بھڑک رہی تھی کہ اس کے شعلے اونچے اونچے درختوں پر بنے ہوئے پرندوں کے گھونسلوں کو بھی جلا رہے تھے۔ آدھے شہر کو آگ کے شعلوں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور آگ برابر بڑھتی جا رہی تھی، آگ بجھانے کی کوئی بھی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ پانی کی مشکیں ڈالنے سے آگ مزید بھڑک اٹھتی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پانی آگ بجھا نہیں رہا بلکہ آگ کو تیز کر رہا ہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے آگ کو اللہ تعالیٰ سے مدد پہنچ رہی ہو۔ اس کی لپٹیں بڑھتی جا رہی تھیں۔
جب لوگ آگ پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے تو گھبرائے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے امیر المومنین! ہمارے گھروں، باغوں اور دکانوں کو لگی ہوئی آگ پانی سے نہیں بجھ رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، یہ آگ اللہ تعالیٰ کے قہر کی نشانیوں میں سے ہے یہ آگ تمہارے بخل کی آگ کا شعلہ ہے اور تمہارے بخل کے گناہ کی سزا ہے۔ تم آگ پر پانی ڈالنا چھوڑو اور غریبوں اور حاجت مندوں میں روٹیاں تقسیم کرو۔ آئندہ کے لیے بخل سے توبہ کرو۔
لوگوں نے یہ سنا تو کہنے لگے، اے امیر المومنین! غریبوں اور مسافروں کے لیے ہم نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، تمہاری مہمان نوازی بطور عادت ہے بطور عبادت نہیں ہے۔ تم اپنی شان و شوکت اور خود نمائی کے لیے یہ کام کرتے ہو، خوف خدا اور نیاز مندی کی نیت سے نہیں کرتے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سن کر ان لوگوں نے دل کھول کر سخاوت کی اور اپنی نیتوں کو درست کر لیا۔ آئندہ کے لیے بخل اور ریاکاری سے توبہ کی۔ چناچہ شہر والے سخاوت کرنے میں مصروف تھے اور اسی وقت آگ کے شعلے آہستہ آہستہ سرد ہوتے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں شہر میں لگی ہوئی آگ سرد ہو گئی۔
اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جب کوئی برائی اجتماعی طور پر بہت زیادہ بڑھ جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ کے طور پر کوئی نہ کوئی آفت نازل ہو جاتی ہے۔ جو صرف اور صرف آللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے ہی ٹلتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ سخاوت کا درجہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت بلند ہے۔ صدقہ و خیرات دیتے رہنے سے انسان بے شمار آفات و مصائب سے بچا رہتا ہے۔
(حکایاتِ رومی سے ماخذ)