کوچۂ سخن

غزل


وفورِ حسن کی لذت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کچھ آئنے ہیں جو حیرت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کسی جتن کی ضرورت نہیں پڑے گی تمہیں
ہم ایسے لوگ محبت سے ٹوٹ جاتے ہیں
زمانہ ان کو بہت جلد مار دیتا ہے
جو لوگ اپنی روایت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کئی زمانے کی سختی بھی جھیل لیتے ہیں
کئی وجود حفاظت سے ٹوٹ جاتے ہیں
ہم ایسے لوگوں کو عِشوہ گری نہیں آتی
ہم اک ذرا سی شرارت سے ٹوٹ جاتے ہیں
کبیرؔ جب سبھی دیواریں خستہ ہو جائیں
تو پھر مکان مرمت سے ٹوٹ جاتے ہیں
(انعام کبیر، کامونکی)

۔۔۔
غزل


رہیں یونہی، ارے، میری بلا سے
یہ سب کھوٹے کھرے، میری بلا سے
میسر جب نہیں سایہ کسی کو
شجر سوکھے، ہرے، میری بلا سے
وہ میرے بعد کرتا ہے سنا ہے
ہوا سے مشورے، میری بلا سے
کسی کی آنکھ میں بس جائیں چاہے
یہ منظر دکھ بھرے میری بلا سے
اسے مجھ سے محبت جب نہیں تو
بھلے جس سے کرے، میری بلا سے
کہا، سب نے کہ مر جائے گی کومل
کہا اس نے، مَرے، میری بلا سے
(کومل جوئیہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ)

۔۔۔
غزل


افسوس کسی طور بھی دَم بھر نہیں کھلتا
اک در کہ سرِ شامِ معطر نہیں کھلتا
رنگوں میں نہائی ہوئی اک یاد کا چہرہ
کھلتا ہے مگر میری طلب پر نہیں کھلتا
جس کو نہیں الفاظ برتنے کا سلیقہ
اس پر کبھی تخلیق کا جوہر نہیں کھلتا
اے کاش کھلے مجھ پہ ترے کُن کا فسانہ
یہ عالمِ تکوین میں رہ کر نہیں کھلتا
کیوں زنگ بصیرت کے کواڑوں کو لگا ہے؟
کیوں مجھ پہ تری ذات کا منظر نہیں کھلتا
میں ایک تسلسل سے جسے دیکھ رہا ہوں
وہ شخص مرے سامنے آ کر نہیں کھلتا
ہر روز کہاں چجتے ہیں الفاظ کے نوحے
ہر روز شکایات کا دفتر نہیں کھلتا
(عبدالرحمان واصف، کہوٹہ)

۔۔۔
’’ بے سخن دریچوں سے‘‘

یاد ہے
میں نے تم سے کہا تھا مرا ہر سخن تم سے ہے
دیکھ لو!!
چھ مہینوں سے اب تک
کسی نظم کی کوئی ہلکی سی آہٹ بھی دل کے دریچے پہ
دستک نہیں دے سکی ہے
مگر اب میں اس سے زیادہ دعاؤں میں تم کو نہیں مانگ سکتی
خدا اتنا فارغ نہیں ہے
کہ سب چھوڑ کر صرف ہم کو ملانے کی خاطر
زمانے میں ’’کُن‘‘ کی صدائیں لگاتا پھرے
اس کی دنیا میں ہم ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں
( ہاں وہ دنیا… جو ہم نے بنائی تھی اس میں فقط ’’ہم‘‘ ہی تھے)
وقت کا اژدھا میری ٹین ایج کی ساری معصومیت کو نگلنے لگا ہے
خدا اور رحمت کا نقشہ… جو بچپن میں اماں نے کھینچا تھا
یکسر بدلنے لگا ہے
کہیں دور سے پھر تمہاری صدا آرہی ہے
مگر دل یہ کہتا ہے
’’بس اب نہیں… خامشی چاہیے…!!‘‘
(اور تم جانتے ہو، میں دل کی سنوں گی…)
یہ کیا ہے کہ جب آنکھیں موندوں تو رنگ اور منظر
مگر آنکھیں کھولوں تو ہر سو اندھیرا ہے
میں نے تمہیں روشنی فرض کر کے یہ سب دل کی باتیں کہی ہیں
مری بیقراری کسی غیر محسوس سانچے میں دھیرے سے ڈھلنے لگی ہے
مہینوں سے دل کے جزیرے پہ جمتی ہوئی برف آخر پگھلنے لگی ہے
کوئی نظم پھر مجھ میں چلنے لگی ہے…!!
(فریحہ نقوی، لاہور)

۔۔۔
غزل


عکس کتنے بدل رہی ہوں میں
جیسے پانی پہ چل رہی ہو میں
آج الجھن بنی ہوں جس کے لیے
اس کی مشکل کا حل رہی ہوں میں
جس کو صدیاں شمار کرتی ہوں
اس کا بس ایک پل رہی ہوں میں
اے مرے بد گمان تیرے ساتھ
خوش گمانی سے چل رہی میں
اس کہانی سے آج وحشت ہے
جس کا کردار کل رہی ہوں میں
(بلقیس خان، میانوالی)

۔۔۔
غزل


نظر میں جم گیا منظر، ٹرین چلنے لگی
بجائے پٹڑی کے دل پر، ٹرین چلنے لگی
وسل بجی تو بچھڑتے ہوؤں کے چہرے پر
غبارِ رنج گرا کر، ٹرین چلنے لگی
لرزتے پلکوں پہ آنسو چلو نہیں دیکھے
صدائیں سن کے بھی خود سَر، ٹرین چلنے لگی
ہماری آنکھوں کی لالی نے بارہا روکا
اشارہ توڑ کے کیوں کر، ٹرین چلنے لگی
پرانے دوست کی صورت کھڑے تھے میرے ساتھ
اداس سرو و صنوبر، ٹرین چلنے لگی
تلاشِ رزق میں گاؤں سے جانے والوں کو
دیا فریبِ مقدر ٹرین چلنے لگی
جو پچھلی رات کہیں آنکھ لگ گئی جاذبؔ
یقیں کریں مرے اوپر ٹرین چلنے لگی
(اکرم جاذب، منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل


کیا اذیت ہے مرد ہونے کی
کوئی بھی جا نہیں ہے رونے کی
دائرہ قید کی علامت ہے
چاہے انگوٹھی پہنو سونے کی
سانس پھونکی گئی بڑا احسان
چابی بھر دی گئی کھلونے کی
ایسی سردی میں شرط چادر ہے
اوڑھنے کی ہو یا بچھونے کی
بوجھ جیسا تھا جس کا تھا مجھے کیا
مجھے اجرت ملی ہے ڈھونے کی
میں جزیرے ڈبونے والا ہوں
خو نہیں کشتیاں ڈبونے کی
(پارس مزاری، بہاولپور)

۔۔۔
’’وقت کی کتھا‘‘
شام بیٹھی ہوئی ہے حجرے میں
رات کہتی ہے کچھ اجالے دو
اور سویرے کا سرد چہرہ ہے
عکس ڈھلتا ہے زرد سورج کا
اک گھنے پیڑ میں نکلتا دن
چھپ رہا ہے سیاہ آنکھوں میں
دور تک روشنی کا نام نہیں
اور وہ دیکھو کہ ایک پگلی نے
طاق میں پھر دیا جلایا ہے
چاند کہتا ہے جھیل میں اترو
اک ذرا دیر ہم نشیں ٹھہرو
مجھ سے باتیں کرو کہ وحشت نے
شہر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں
شب کو ڈھلنے سے روک رکھا ہے
دن نکلنے سے روک رکھا ہے
(سارا خان، راول پنڈی)

۔۔۔
غزل
پھولوں کے سنگ کانٹوں سے بھی یاری کی
ہم نے گلشن میں ایسے گلزاری کی
آدھا حصّہ اس کا قصّہ تھا شاید
اُس نے میری نظم پہ آہ و زاری کی
اپنے دوست کو جاکر سب کچھ بول دیا
ہم نے اپنے دشمن سے غداری کی
ترکِ تعلق واحد حل تھا میری جان
تم نے میرے ساتھ بڑی منہ ماری کی
کچھ لوگوں کا خون بہا تھا سڑکوں پر
تب جاکر تحریک چلی بیداری کی
مصرعے جوڑ کے اپنا ہی غم لکھا ہے
میں نے خود پہ ایک اذّیت طاری کی
شاعر سے کہتے ہیں روگ لگا ہوگا
کوئی وجہ تو ہوتی ہے بے کاری کی
ہنسنے والے اچھا خاصا روئے تھے
بیچ سڑک میں ایسی کیا فن کاری کی؟
اور میاں شہزاد کہاں سے آتے ہو؟
رات گئے مسجد کی چوکیداری کی؟
(شہزاد مہدی، اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔

ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
٭٭٭
سوال یہ ہے کہ اس پُرفریب دنیا میں
خدا کے نام پہ کس کس کا احترام کریں
٭٭٭
فریب خوردہ ہے اتنا کہ میرے دل کو ابھی
تم آ چکے ہو مگر انتظار باقی ہے
٭٭٭
یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکا بھی کھا لیتا ہوں
٭٭٭
یقیں ان کے وعدے پہ لانا پڑے گا
یہ دھوکا تو دانستہ کھانا پڑے گا
٭٭٭
زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا
میں بھی دھوکا کھا کر کچھ چالاک ہوا
٭٭٭
خدا کے نام پہ کیا کیا فریب دیتے ہیں
زمانہ ساز، یہ رہبر بھی، میں بھی، دنیا بھی
٭٭٭
شوق کے ممکنات کو دونوں ہی آزما چکے
تم بھی فریب کھا چکے ہم بھی فریب کھا چکے
٭٭٭
زخم بھی اب حسین لگتے ہیں
تیرے ہاتھوں فریب کھانے پر
٭٭٭
دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر
امکانِ التفات سے ہم کھیلتے رہے
٭٭٭
نگاہِ ناز کی معصومیت ارے توبہ
جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
٭٭٭
جو با خبر تھے وہ دیتے رہے فریب مجھے
ترا پتہ جو ملا ایک بے خبر سے ملا
٭٭٭
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
٭٭٭
کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
٭٭٭
کھلا فریب محبت دکھائی دیتا ہے
عجب کمال ہے اس بے وفا کے لہجے میں
٭٭٭
یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے
ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے
٭٭٭
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
٭٭٭
مجھے تو یہ بھی فریبِ حواس لگتا ہے
وگرنہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ صفحہ کوچۂ سخن، روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) ، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی email:arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FH8hap