Technocrati Bandobast Ki Afwahain - Nusrat Javeed


ٹیکنو کریٹی ”بندوبست“ کی افواہیں 
نصرت جاوید 

گزشتہ ہفتے کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی وقتِ عصر ہوئی پریس کانفرنس موثر ثابت نہیں ہوپائی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے صاف الفاظ میں مارشل لاءکے نفاذاور ٹیکنوکریٹس حکومت کے قیام کو رد کردیا تھا۔ ہیجان پیدا کرنے کے عادی میڈیا والوں کی مگر تسلی نہیں ہوئی۔ پیر کی صبح پانامہ دستاویزات کی بدولت اس ملک میں Investigative صحافت کے سپرسٹار مشہورہوئے عمرچیمہ نے ”کھیل ختم ہونے والا ہے؟“والی کہانی لکھ کر اس دن کی شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک قوم کی رہ نمائی کرنے والے مجھ ایسے بھاشن فروشوں کو ایک بار پھر ”جمہوریت“ کے مستقبل کے بارے میں پریشان کردیا۔ 
”جمہوریت“ کو دانستہ طورپر Quotes میں لکھتے ہوئے میں نے مشکوک بنایا ہے اورمیں یہ جسارت کرنے پر ہرگز شرمندہ نہیں ہوں۔ جمہوری نظام کی ہر قسم میں فیصلہ سازی کا حتمی اختیار عوام کی منتخب کردہ قیادت کے پاس ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز میں یہ واقعہ قیام پاکستان کے 4 برس بعد پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد کبھی ہوا ہی نہیں۔ 
اس قتل کے بعد اس وقت تک اس سرزمینِ بے آئین میں سب سے طاقت ور عہدہ یعنی گورنر جنرل کا دفتر جسے برطانوی راج کے وائسرائے جیسے اختیارات حاصل تھے ایک بیوروکریٹ-ملک غلام محمد-کے پاس چلا گیا تھا۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین خان بنائے گئے۔ تعلق ان کا ڈھاکہ کے اس خانوادے سے تھا جن کے تاریخی گھر میں مسلم لیگ کی بنیاد 1906ء میں رکھی گئی تھی۔ 
اس شریف النفس شخص کو ہر حوالے سے بے اختیار بنادیا گیا۔ بات ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہوئی کہ پیٹو بہت ہیں۔ ان کے کھانے کی میز مرغن ڈشوں سے لدی رہتی ہے۔ ان ہی کے دور میں لیکن گندم کی مصنوعی قلت پیدا کردی گئی۔ آٹے کا بحران شدید ہوا تو ناظم الدین کو ”قائدِ قلت“ کا لقب ملا۔ 
پنجاب میں ان دنوں ایک بہت ہی سازشی، کائیاں اور ضرورت سے زیادہ متحرک ممتاز محمد خان دولتانہ کی بادشاہی تھی۔ موصوف نے اخبارات کے ذریعے ”قادیانی مسئلہ“ کھڑا کردیا۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے لاہور میں مارشل لاءلگا۔ عسکری قیادت کی Practice ہوگئی۔ اسے سمجھ آگئی کہ آئندہ کبھی پورے ملک کو چلانا پڑا تو ریاستی فرائض کیسے نبھائے جائیں گے۔ 
ان دنوں کے آرمی چیف جنرل ایوب خان نے قوم کو ”مستحکم“ سیاسی نظام فراہم کرنے کے بارے میں سوچ بچار شروع کردی۔ ملکی نظام کو درست کرنے سے پہلے مگر ضروری تھا کہ امریکہ کو پاکستان کی اہمیت سمجھائی جائے۔ سردجنگ میں الجھے امریکہ کو اگرچہ اس اہمیت کا ازخود خوب احساس تھا۔ ہم اس کے بنائے سیٹو اور سینٹو اتحادوں کا حصہ بن گئے۔ کمیونسٹ روس کو تباہ کرنے کے لئے ”فرنٹ لائن“ کا کردار ادا کرنے کی تیاری شروع کردی۔ 
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دس ”سنہری سال“ جن کی یاد گزشتہ چند ماہ سے ہمارے دونمبر ماہرینِ معیشت کو بہت ستانا شروع ہوگئی ہے، دراصل اسی کردار کو نبھانے کی تیاری تھی۔ کمیونسٹ روس کو تباہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوئے ایوب خان مگر مشرقی پاکستان میں اُبلتے غصے کو سمجھ ہی نہ پائے۔ بھارت سے 1965ء کی جنگ، بقول ہمارے مورخوں کے، میدانِ جنگ میں جیت کر تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہارگئے۔ امریکہ نے ان کا اس جنگ میں ساتھ نہ دیا تھا۔ دل کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے اور الطاف گوہر سے ”جس رزق سے آتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ “نامی کتاب لکھواکر اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کیا اور بالآخر اپنے خلاف چلی عوامی تحریک کے ہاتھوں ہمت ہارکر صدارت سے مستعفی ہوکر گھر چلے گئے۔ ان کے بعد مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ نہ رہا۔ بنگلہ دیش بن گیا۔ 
بقیہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے ”نیا پاکستان“ بنانا چاہا۔ اسے ایک متفقہ آئین دیا مگر اس آئین پر پوری طرح عمل نہ کرپائے۔ بلوچستان کی منتخب حکومت کو توڑکر وہاں فوجی آپریشن میں مصروف ہوگئے۔ ” 90 سالہ قادیانی مسئلہ“ حل کرنے کے باوجود بھی انہیں چین نصیب نہیں ہوا۔ ملاﺅں نے ان کی کمزوری دریافت کرلی اور تحریک نظام مصطفےٰ کے نام پر بالآخر ایک تحریک چلائی جس کا انجام ضیاءالحق کا مارشل لاءتھا۔ 1988ء کے بعد والے واقعات حالیہ تاریخ ہیں۔ انہیں دہرانا ضروری نہیں۔ 
اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں 1951ء کے بعد سے عوام کے منتخب کردہ لوگوں کو حقیقی قوت واختیار کبھی نصیب ہی نہیں ہوا اور ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اپنی بے اختیاری کی عادی ہوچکی ہے۔ ”اسی تنخواہ“ پر کام کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے۔ ریاستی قوت واختیار کا جو حصہ انہیں نصیب ہوتا ہے اسے اپنی ذاتی معیشت کے ”استحکام“ اور دوست نوازی پر خرچ کردیتی ہے۔ 
سیاست دان کی اصل قوت اس کی سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مضبوط وتوانا بنانے کے لئے مگر نعرے لگاتے Fans کو سیاسی کارکن بنانا ہوتا ہے۔ ہمارے رہ نماﺅں کو البتہ زندہ باد اور مردہ باد کہنے والے Fansہی درکار ہوتے ہیں اور Fans مشکل دنوں میں کام نہیں آتے۔ ویسے بھی ایک ہی شخص کی پرستش سے انسان اُکتاجاتے ہیں۔ ”نئے چہروں“ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ 
منظم سیاسی جماعت کی عدم موجودگی میںایک سیاسی حکمران پارلیمان کے سہارے ہی فیصلہ سازی میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ 1985 سے 1988 تک محمد خان جونیجو مرحوم نے یہی کیا تھا۔ وہ برطرف ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی کھڑا نہ ہوا۔ خاموشی سے گھر چلے گئے۔ 
جونیجو مرحوم کی برطرفی کے بعد پارلیمان نے خود کو کبھی بااختیار بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس میں موجود افراد بلکہ ایک دوسرے کو ”چور، ڈاکو“ پکارتے ہوئے اس ادارے کی اجتماعی تذلیل میں مسلسل مصروف رہے۔ 2017 کی پارلیمان اس وقت پاکستان کا کمزور ترین ادارہ ہے۔ اس ادارے کی کمزوری نے عدلیہ کا دائرہ اختیار ضرورت سے زیادہ بڑھادیا ہے۔ 
عدلیہ کی جانب سے ہوئے فیصلے ہمیشہ ”آئینی “ اور ”قانونی“ شمار ہوتے ہیں۔ اس سے ”رہ نمائی“ لیتے ہوئے لہذا ہمارے مقتدر ادارے اگر اس ملک کو سنوارنے کی کوئی سکیم سوچیں تو وطنِ عزیز کے ”آئینی“ ہونے کا بھرم برقرار رہے گا۔ اسی لئے ان دنوں اسلام آباد کے ہر دوسرے طاقت ور گھر میں آئین کے آرٹیکل 190 اور 184(3)کے چرچے ہیںاور ”ٹیکنوکریٹی بندوبست “کی افواہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ صبح گیا یا شام گیا والا ماحول ہے۔ 
اس ماحول نے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کو ہیجانی کیفیات میں مبتلا رکھا ہے۔ ان کیفیات کا اظہار ٹی وی سکرینوں پر ہوتو رونق لگ جاتی ہے۔ Ratings آتی ہیں۔ عقلِ کل اور Star اینکرز حق وصداقت کی علامتیں بنے اتراتے پھرتے ہیں۔ ہر ہیجانی کیفیت کا مگر ایک دورانیہ ہوتا ہے۔ ہر نوعیت کے دورانیے کی طرح اس کا انجام بھی ضروری ہے۔ محسوس ہورہا ہے کہ 2014ء سے شروع ہوا موجودہ ہیجان اب اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہورہا ہے۔ اس کے بعد کوئی نیا کھیل شروع ہوگا۔ 
کسی نئے قسط وار ڈرامے کا سکرپٹ ان دنوں اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ Casting اس کے لئے ہورہی ہے۔ صرف Production شروع ہونے کا اعلان باقی ہے۔