Khakay (1) - Ali Mehmood


خاکے (1) 
علی محمود 

ہمارا دماغ جو بھی نیا لفظ سنتا ہے اسکے متعلق خاکے تیار کرنا شروع کر دیتا ہے اور بعض اوقات معاشرے میں رائج خاکے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے مثلاً لفظ پانی سنتے ہی ہمارے ذہن میں پانی سے متعلق جو خاکے یا جو تصویریں محفوظ ہوتی ہیں فوراً وہ آجاتی ہیں۔ اس لئے پانی سے متعلق سن کر ہمیں خاکے تیار نہیں کرنا پڑتے۔ اسی طرح دنیا میں موجود بہت سی اشیاء سے متعلق خاکے ہمارے زہنوں میں ماضی کے تجربات یا معاشرے کی وجہ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ جیسے کمپیوٹر میں پروگرامنگ کی جاتی ہے۔ یہی خاکے مختلف مرحلوں سے ہوتے ہوئے نظریے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، پانی کی ہی مثال کو لے کر چلتے ہیں، ہمارے دماغ میں سب سے پہلے پانی کی ایک تصویر ہمارے پچپن میں محفوظ ہوئی ہو گی اس سے متعلق ہم نے یا تو اپنے اردگرد لوگوں سے سنا ہوگا یا کسی نے ہمیں بتایا ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دماغ نے اس کی تحقیق کی اور دماغ کو اس بات کی کئی جگہ سے گواہی ملی کی پانی کے متعلق جو کچھ میرے پاس محفوظ ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے حالانکہ حقیقت میں وہ درست ہے یا نہیں۔ لیکن معاشرے میں رائج ہونے کی وجہ سے یہ ایک نظریے کی شکل احتیار کر گیاہوتا ہے۔ اور اگر بہت سالوں بعد کوئی ہمیں یہ کہے کہ ہمارے ذہن میں پانی سے متعلق جو خاکے موجود ہیں وہ غلط ہیں تو ہمارا دماغ اس بات کو آسانی سے تسلیم نہیں کرے گا۔ چونکہ پہلے نظریے کی جڑیں بہت مضبوط ہو چکی ہوتی ہیں۔ اسی طرح عموماً کامیابی کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں موجود خاکے آنا شروع ہو جاتے ہیں ان خاکوں میں عموماً وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا معاشرے میں مالی طور سے مقام سب سے اونچا ہوتا ہے۔ یا جو لوگ دنیاوی طور پر دولت مند کہلاتے ہیں۔ حالانکہ کامیابی کوئی مادی چیز نہیں ہے اس لئے اس سے متعلق ہمیں اپنے دماغ میں موجود خاکوں کی جانچ پڑتا ل کرنی پڑے گی۔ کامیابی سے متعلق سکالرز کی رائے مختلف ہے لیکن عام آدمی میں اس کی تعریف وہی ہے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ دنیا میں وہ اشیاء جن کو ہم چھو سکتے ہیں ان سے متعلق دماغ میں خاکے یا تصویریں محفوظ کرنا فطری عمل ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں لیکن وہ اشیاء جن کو ہم چھو نہیں سکتے لیکن ان کا ہماری زندگی میں بہت عمل دخل ہوتا ہے ان سے متعلق کسی قسم کی تصویر یں بنانا وہ بھی معاشرے کے تجربات کی روشنی میں یہ حماقت ہے کیونکہ ہر انسان کی زندگی کےتجربات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اس بات کے نتائج کیسے اچھے ہو سکتے ہیں کہ ہم کسی کے تجربے کی وجہ سے اپنے دماغ میں کسی اچھی چیز سے متعلق غلط خاکہ بنالیں۔ لہذا ان نظریات کی تشکیل بہت دھیان سے کرنی ہو گی جن کی بنیار پر زندگی گزارنی ہوتی ہے اور ہماری خوشی یا اداسی کا براہ راست تعلق انہی نظریات سے ہوتا ہے۔ کامیابی کسی ایک عادت یا چند عادات اپنانے کا نام نہیں ہے میرے نقطہ نظر کے مطابق زندگی کے ہر لمحے، ہر موقع پر آپ کو اپنی عادات کو تبدیل کرنا ہو گا۔ لیکن اس کام کو کوئی امتحان سمجھ کر کرنا حماقت ہو گی۔ زندگی کے شیڈول کے آہستہ آہستہ تبدیل کرنا اوروہ بھی بنیاد سے یہ اصل مقصد ہو گا۔ بنیاد کیا ہے؟ بنیاد ہمارے وہ نظریات ہیں جن پر ہماری زندگی کی مختلف عمارتیں کھڑی ہیں۔ ہر نظرے پر ایک عمارت کھڑی ہے جس کو گرانا ہے۔ اور نئی بنیاد پر ایک نئی عمارت کو کھڑا کرنا ہے تاکہ زندگی میں کبھی ہمارے نظریات کسی بھی وجہ سے یا کسی بھی تجربے کی وجہ سے کمزور نہ پڑ جاہیں۔ ایک بات شروع میں سمجھنےکی ہے کہ ہماری زندگی سوچ کے مطابق گزر رہی ہوتی ہے۔ جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا ہی ہمارا عمل ہوتا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذہن میں بنے نظریات جو کہ اپنی بنیادیں ہمارے وجود میں بہت پختہ کر چکے ہیں ان کو تبدیل کرنا یا ان سے جان چھرانا آسان ہے؟ تو اسکا بہت آسان حل ہے میں اگلے کالم ایک مثال سے اس کا حل واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔   (جاری ہے)