امام علی بن حُسین علیہ السلام
امجد عباس
امام علی بن حُسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام ملقب بہ زین العابدین، دیگر آئمہ اہل بیت کی طرح عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ مدینہ منورہ میں علم و فضل، حسب و نسب میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا۔ آپؑ کی ولادت مدینہ منورہ میں ۳۸ ہجری میں ہوئی جبکہ وفات ۹۵ ھجری میں ہوئی۔ آپ کربلا میں اپنے والد کے ساتھ موجود تھے، تاہم مریض ہونے کی وجہ سے نہ لڑ پائے، چنانچہ اہلِ بیت کے قافلے کے ساتھ واپس مدینہ تشریف لائے۔ آپؑ واقعہءِ کربلا کے چشم دید راوی ہیں، اِس لحاظ سے آپؑ سے واقعاتِ کربلا اور مصائب بھی مروی ہیں۔ آپؑ کی اعلمیت اور علوِ مرتب کا علماء نے بھرپور اظہار کیا ہے، سُنی عالم امام نووی لکھتے ہیں کہ علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب مشہور تابعی ہیں، آپ عبادت گزاروں کی زینت (زین العابدین) سے معروف ہیں۔
علم و عمل ہر میدان میں آپ کی جلالت پر سب کا اتفاق ہے۔
یحیی انصاری کہتے ہیں کہ مدینہ میں سب سے افضل ہاشمی آپ تھے۔
امام زہری کے مطابق مدینہ بھر میں آپ سے افضل کوئی نہیں تھا۔
امام بخاری کے استاد ابنِ ابی شیبہ نے زہری کی امام زین العابدین سے مروی احادیث کو اصح الاسانید کہا ہے۔
آپ کی وفات کے وقت معلوم ہوا کہ آپ مدینہ کے سو گھرانوں کی مخفی انداز سے آپ کفالت فرمایا کرتے تھے۔
(تھذیب الاسماء واللغات للنووی، جلد 1، صفحہ 343)
بڑے بڑے مُحدثین نے آپؑ سے احادیثِ اہلِ بیت کو نقل کیا ہے۔ آپؑ کو قرآن مجید سے بہت اُنس تھا، امام زُہری نے قرآن مجید کے حوالے سے آپؑ سے کئی احادیث نقل کیں، اُن میں سے دو رویات پیش کرتا ہوں جنھیں مُحدث کُلینی نے اپنی الکافی کی کتاب ’’فضل القرآن‘‘ میں لایا ہے
عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ عليه السلام يَقُولُ آيَاتُ الْقُرْآنِ خَزَائِنُ فَكُلَّمَا فُتِحَتْ خِزَانَةٌ يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَنْظُرَ مَا فِيهَا۔
زہرى کہتے ہیں: میں نے حضرت على بن الحسين زین العابدین علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن کی آیتیں (علوم و معارف کا) خزانے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تم ایک خزانے کا دروازہ کھولو تو اس پر نظر ڈالو اور اس میں غور کرو۔
عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَ كَانَ عليه السلام إِذَا قَرَأَ مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوتَ۔
زھری کہتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اگر مشرق اور مغرب کے مابین رہنے والے تمام لوگ مر جائیں میں تنہائی سے ہراساں نہیں ہونگا جب کہ قرآن مجید میرے پاس ہو؛ اور حضرت سجاد عليہ السلام کا شيوہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت جب سورہ فاتحہ کی آیت "مالك يوم الدين" پر پہنچتے تو اسے اس قدر زیادہ دہراتے کہ موت کے قریب پہنچ جاتے۔
حافظ ذہبی نے اپنی کتاب ’’سیر اعلام النُبلاء‘‘ میں آپؑ کا ذکر خیر کیا ہے، وہ حضرت سعید ابن مسیب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے اُن سے کہا کہ فُلاں بندہ بڑا متقی اور پرہیزگار ہے، تو حضرت سعید نے فرمایا کہ تُم نے زین العابدینؑ کو دیکھا ہے؟ ما رأيت أورع منه۔ آپؑ سے بڑا متقی میں نے نھیں دیکھا۔ آپؑ کے متعلق ایک اور واقعہ جسے علامہ ذہبی سمیت علماء و محدثین نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ ہشام حج کرنے آیا، اُس کے ساتھیوں نے امام زین العابدینؑ کو دیکھا کہ لوگ حج کے موقع پر اُن کا بے پناہ احترام کر رہے ہیں اور حضر اسود کی طرف آپؑ جیسے بڑھے لوگ آگے سے، احتراماً ہٹ رہے ہیں تو ہشام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ہشام نے سُنی اَن سُنی کر دی تو پاس کھڑے شاعر فرزدق نے فوری امامؑ کی شان میں ایک طویل قصیدہ کہا، جس کے چند اشعار ’’سیر اعلام النُبلاء‘‘ سے ہی علامہ ذہبی کی روایت سے نقل کرتا ہوں
هذا الذي تعرف البطحاء وطأته
والبيت يعرفه والحل والحرم
هذا ابن خير عباد الله كلهم
هذا التقي النقي الطاهر العلم
إذا رأته قريش قال قائلها
إلى مكارم هذا ينتهي الكرم
يكاد يمسكه عرفان راحته
ركن الحطيم إذا ما جاء يستلم
يغضي حياء ويغضى من مهابته
فما يكلم إلا حين يبتسم
هذا ابن فاطمة إن كنت جاهله
بجده أنبياء الله قد ختموا
اشعار کا مفہوم کچھ یُوں ہے کہ یہ وہ ہستی ہیں کہ جس کے نقش قدم کو وادیٔ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ ) پہچانتی ہے اور بیت اللہ اور حل وحرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ تو اس ذات گرامی کے فرزند ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ، صاف ستھرے اور سید و سردار ہیں۔ جب ان کو بنی قُریش دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کی بزرگی و جواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے۔ جب وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آتے ہیں توایسا لگتا ہے کہ حجر اسود ان کی خوشبو پہچان کر ان کا ہاتھ پکڑ لے گا۔ وہ شرم وحیا سے نگاہیں نیچی رکھتے ہیں، اور ان کے رعب و ہیبت سے دوسروں کی نگاہیں نیچی رہتی ہیں، اس لیے ان سے اسی وقت گفتگوکی جاسکتی ہے جب وہ تبسم فرمارہے ہوں۔ یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے فرزند ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا تو سُن لے کہ اِن کے محترم نانا خاتم الرُسُل ہیں۔
واقعہءِ کربلا کے بعد آپؑ نے مدینہ منورہ میں احادیثِ اہلِ بیتؑ کی ترویج شروع کی، آپؑ ہر وقت عبادت، تلاوتِ قرآن، بیانِ احادیث اور دعا و مناجات میں مصروف رہتے، آپؑ سے مروی دعاوں پر مشتمل کتاب ’’ صحیفہءِ سجادیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ انسانی حقوق پر آپ کا ایک تفصیلی خط ’’رسالۃ الحقوق‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپؑ نے مدینہ منورہ میں علوم و معارفِ اہل بیت کی وسیع پیمانے پر تبلیغ کی۔ آپؑ کا تفصیلی حالات علماء نے مختلف کتابوں میں ذکر کیے ہیں۔ واقعہءِ کربلا کے بعد آپؑ نے تقریباً ۳۴ سالہ زندگی میں کارِ امامت و ہدایت کو باحسن انجام دیا۔ آپؑ کو ’’بیمارِ کربلا‘‘ اِس مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ اُس وقت آپؑ مریض تھے، تاہم واقعہ کربلا کے بعد آپؑ نے بڑی مجاہدانہ زندگی بسر کی، بہت سے شاگرد تیار کیے، احادیث لکھوائیں، مدینہ منورہ کو علمی مرکز قرار دیا۔ بعد ازاں آپؑ ہی کے طرز کو اپناتے ہوئے آپؑ کے فرزند امام محمد باقرؑ اور پوتے امام جعفر صادقؑ نے علومِ اہلِ بیت سے عالم کو بہرہ مند کیا۔ نسلِ حُسینی آپؑ سے ہی چلی۔ سلام اللہ علیھم اجمعین۔
(آپؑ کے بارے میں شیعی ذاکرین کا یہ تاثر کہ آپؑ دائمی مریض اور واقعہءِ کربلا کو یاد کر کے ہر وقت روتے ہی رہتے تھے، نادرست ہے۔ )
علم و عمل ہر میدان میں آپ کی جلالت پر سب کا اتفاق ہے۔
یحیی انصاری کہتے ہیں کہ مدینہ میں سب سے افضل ہاشمی آپ تھے۔
امام زہری کے مطابق مدینہ بھر میں آپ سے افضل کوئی نہیں تھا۔
امام بخاری کے استاد ابنِ ابی شیبہ نے زہری کی امام زین العابدین سے مروی احادیث کو اصح الاسانید کہا ہے۔
آپ کی وفات کے وقت معلوم ہوا کہ آپ مدینہ کے سو گھرانوں کی مخفی انداز سے آپ کفالت فرمایا کرتے تھے۔
(تھذیب الاسماء واللغات للنووی، جلد 1، صفحہ 343)
بڑے بڑے مُحدثین نے آپؑ سے احادیثِ اہلِ بیت کو نقل کیا ہے۔ آپؑ کو قرآن مجید سے بہت اُنس تھا، امام زُہری نے قرآن مجید کے حوالے سے آپؑ سے کئی احادیث نقل کیں، اُن میں سے دو رویات پیش کرتا ہوں جنھیں مُحدث کُلینی نے اپنی الکافی کی کتاب ’’فضل القرآن‘‘ میں لایا ہے
عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ عليه السلام يَقُولُ آيَاتُ الْقُرْآنِ خَزَائِنُ فَكُلَّمَا فُتِحَتْ خِزَانَةٌ يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَنْظُرَ مَا فِيهَا۔
زہرى کہتے ہیں: میں نے حضرت على بن الحسين زین العابدین علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن کی آیتیں (علوم و معارف کا) خزانے ہیں پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تم ایک خزانے کا دروازہ کھولو تو اس پر نظر ڈالو اور اس میں غور کرو۔
عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَوْ مَاتَ مَنْ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي وَ كَانَ عليه السلام إِذَا قَرَأَ مالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يُكَرِّرُهَا حَتَّى كَادَ أَنْ يَمُوتَ۔
زھری کہتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: اگر مشرق اور مغرب کے مابین رہنے والے تمام لوگ مر جائیں میں تنہائی سے ہراساں نہیں ہونگا جب کہ قرآن مجید میرے پاس ہو؛ اور حضرت سجاد عليہ السلام کا شيوہ تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت جب سورہ فاتحہ کی آیت "مالك يوم الدين" پر پہنچتے تو اسے اس قدر زیادہ دہراتے کہ موت کے قریب پہنچ جاتے۔
حافظ ذہبی نے اپنی کتاب ’’سیر اعلام النُبلاء‘‘ میں آپؑ کا ذکر خیر کیا ہے، وہ حضرت سعید ابن مسیب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے اُن سے کہا کہ فُلاں بندہ بڑا متقی اور پرہیزگار ہے، تو حضرت سعید نے فرمایا کہ تُم نے زین العابدینؑ کو دیکھا ہے؟ ما رأيت أورع منه۔ آپؑ سے بڑا متقی میں نے نھیں دیکھا۔ آپؑ کے متعلق ایک اور واقعہ جسے علامہ ذہبی سمیت علماء و محدثین نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ ہشام حج کرنے آیا، اُس کے ساتھیوں نے امام زین العابدینؑ کو دیکھا کہ لوگ حج کے موقع پر اُن کا بے پناہ احترام کر رہے ہیں اور حضر اسود کی طرف آپؑ جیسے بڑھے لوگ آگے سے، احتراماً ہٹ رہے ہیں تو ہشام سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ہشام نے سُنی اَن سُنی کر دی تو پاس کھڑے شاعر فرزدق نے فوری امامؑ کی شان میں ایک طویل قصیدہ کہا، جس کے چند اشعار ’’سیر اعلام النُبلاء‘‘ سے ہی علامہ ذہبی کی روایت سے نقل کرتا ہوں
هذا الذي تعرف البطحاء وطأته
والبيت يعرفه والحل والحرم
هذا ابن خير عباد الله كلهم
هذا التقي النقي الطاهر العلم
إذا رأته قريش قال قائلها
إلى مكارم هذا ينتهي الكرم
يكاد يمسكه عرفان راحته
ركن الحطيم إذا ما جاء يستلم
يغضي حياء ويغضى من مهابته
فما يكلم إلا حين يبتسم
هذا ابن فاطمة إن كنت جاهله
بجده أنبياء الله قد ختموا
اشعار کا مفہوم کچھ یُوں ہے کہ یہ وہ ہستی ہیں کہ جس کے نقش قدم کو وادیٔ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ ) پہچانتی ہے اور بیت اللہ اور حل وحرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ تو اس ذات گرامی کے فرزند ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ، صاف ستھرے اور سید و سردار ہیں۔ جب ان کو بنی قُریش دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کی بزرگی و جواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے۔ جب وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آتے ہیں توایسا لگتا ہے کہ حجر اسود ان کی خوشبو پہچان کر ان کا ہاتھ پکڑ لے گا۔ وہ شرم وحیا سے نگاہیں نیچی رکھتے ہیں، اور ان کے رعب و ہیبت سے دوسروں کی نگاہیں نیچی رہتی ہیں، اس لیے ان سے اسی وقت گفتگوکی جاسکتی ہے جب وہ تبسم فرمارہے ہوں۔ یہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے فرزند ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا تو سُن لے کہ اِن کے محترم نانا خاتم الرُسُل ہیں۔
واقعہءِ کربلا کے بعد آپؑ نے مدینہ منورہ میں احادیثِ اہلِ بیتؑ کی ترویج شروع کی، آپؑ ہر وقت عبادت، تلاوتِ قرآن، بیانِ احادیث اور دعا و مناجات میں مصروف رہتے، آپؑ سے مروی دعاوں پر مشتمل کتاب ’’ صحیفہءِ سجادیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ انسانی حقوق پر آپ کا ایک تفصیلی خط ’’رسالۃ الحقوق‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپؑ نے مدینہ منورہ میں علوم و معارفِ اہل بیت کی وسیع پیمانے پر تبلیغ کی۔ آپؑ کا تفصیلی حالات علماء نے مختلف کتابوں میں ذکر کیے ہیں۔ واقعہءِ کربلا کے بعد آپؑ نے تقریباً ۳۴ سالہ زندگی میں کارِ امامت و ہدایت کو باحسن انجام دیا۔ آپؑ کو ’’بیمارِ کربلا‘‘ اِس مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ اُس وقت آپؑ مریض تھے، تاہم واقعہ کربلا کے بعد آپؑ نے بڑی مجاہدانہ زندگی بسر کی، بہت سے شاگرد تیار کیے، احادیث لکھوائیں، مدینہ منورہ کو علمی مرکز قرار دیا۔ بعد ازاں آپؑ ہی کے طرز کو اپناتے ہوئے آپؑ کے فرزند امام محمد باقرؑ اور پوتے امام جعفر صادقؑ نے علومِ اہلِ بیت سے عالم کو بہرہ مند کیا۔ نسلِ حُسینی آپؑ سے ہی چلی۔ سلام اللہ علیھم اجمعین۔
(آپؑ کے بارے میں شیعی ذاکرین کا یہ تاثر کہ آپؑ دائمی مریض اور واقعہءِ کربلا کو یاد کر کے ہر وقت روتے ہی رہتے تھے، نادرست ہے۔ )