آپ جانتے ہیں کہ جب ہم نماز کے کے لئیے کھڑے ہوتے ہیں تو قیا م رکوع قومہ سجدہ جلسہ قعدہ وغیرہ سے پہلے نماز کی ابتدا تکبر تحریمہ سے کرتے ہیں اس مرحلہ پر ہم اللہ اکبر کے کلمات ادا کرتے ہیں تکبیر تحریمہ کی ادائیگی نماز کے فرائض میں شامل ہے اگر کوئی شخص نماز کو اسکی تمام شرائط فرائض و واجبات سنن مستحبات کے ساتھ ادا کرے لیکن تکبیر تحریمہ کو ترک کر دے تو اسکی نماز نہیں ہوگی کیونکہ اس نے پہلے رکن یعنی تکبیر تحریمہ کو ترک کر دیا تھا اصطلاحی معنوں میں تکبیر سے مراد اللہ اکبر یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرنا ہے دراصل اللہ اکبر کہتے ہوئے ہم اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ کبریائی و بڑائی صرف اس ذات بے ہمتا کے لئیے ہے جو قادر مطلق اور خالق کل ہے...تحرم کے معنی ممانعت حرمت پابندی وغیرہ کے ہیں یعنی جب ہم اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ بلند کرتے ہیں تو اسکے بعد کئی جائز امور بھی ممنوع وحرام ہو جاتے ہیں جیسے بات کرنا کھانا پینا چلنا پھرنا وغیرہ اور اگر ہم اس نوع کے کسی جائز کام کو دوران نماز کریں تو ہماری نماز فاسد ہو جاتی ہے...امام شافعی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ نماز کا افتتاح تکبیر سے ہوتا ہے اور اللہ اکبر کہنے سے نماز منعقد ہو جاتی ہے عام لفظوں میں ہم تکبیر تحریمہ کو نماز کا Gate way کہہ سکتے ہیں...تکبیر تحریمہ surrender کے معانی ہے جسکا مطلب ہوا
Give up one self or possession to an other .Or to let out of one's possession or control completely.مثلا آپنے کئی باردیکھا ہوگا جب اک پہلوان دوسرے کو پچھاڑ کر شکست سے دوچار کرتا ہے تو دوسرا مجبورا ہاتھ اٹھا کر اپنی یار تسلیم کر لیتا ہے اس طرح کوئی جنگجو ہمت ہار جائے تو وہ اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک کر ہاتھ بلند کر کے surrender کرتا ہے الغرض جو شخص surrender کر جائے خواہ وہ کتنا بڑا دہشت گرد ظالم وحشی یی کیوں نہ ہو دنیا کا کوئی قانو ن اسے جان سے مارنے یا قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ...ہاں آپ اسے گرفتار کرکے اسکا trail کرسکتے ہیں ہار مان کر اقرار جرم کر کے ہمت ہار کر ہا دوسرے کی نرتری تسلیم کرتے ہوئے دونوں ہاتھ بلند لینا دراصل اک فطری عمل ہے اور غیر ارادی رویہ بھی..جسکا اظہار از خود یا نے سا ختہ ہو جاتا ہے لہذا جب ہم نماز کی ادائیگی کے لئیے مصلی پر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم حکم الحکمین کی بار گاہ میں پیش ہورہے ہیں کو ذات کبریا ہے ہمیں ہمارا جذب اندروں اور داخلی دباؤ اللہ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے surrender کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے.کہنا یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے لئیے ہاتھ بلند کرنے کا اک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے بندہ نے مولا کی بارگاہ میں SURRENDER کر دیا ہے...وہ اک سجدہ جسے گراں سمجھتا ہے تو ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات...
Give up one self or possession to an other .Or to let out of one's possession or control completely.مثلا آپنے کئی باردیکھا ہوگا جب اک پہلوان دوسرے کو پچھاڑ کر شکست سے دوچار کرتا ہے تو دوسرا مجبورا ہاتھ اٹھا کر اپنی یار تسلیم کر لیتا ہے اس طرح کوئی جنگجو ہمت ہار جائے تو وہ اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک کر ہاتھ بلند کر کے surrender کرتا ہے الغرض جو شخص surrender کر جائے خواہ وہ کتنا بڑا دہشت گرد ظالم وحشی یی کیوں نہ ہو دنیا کا کوئی قانو ن اسے جان سے مارنے یا قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ...ہاں آپ اسے گرفتار کرکے اسکا trail کرسکتے ہیں ہار مان کر اقرار جرم کر کے ہمت ہار کر ہا دوسرے کی نرتری تسلیم کرتے ہوئے دونوں ہاتھ بلند لینا دراصل اک فطری عمل ہے اور غیر ارادی رویہ بھی..جسکا اظہار از خود یا نے سا ختہ ہو جاتا ہے لہذا جب ہم نماز کی ادائیگی کے لئیے مصلی پر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم حکم الحکمین کی بار گاہ میں پیش ہورہے ہیں کو ذات کبریا ہے ہمیں ہمارا جذب اندروں اور داخلی دباؤ اللہ اکبر کہہ کر دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے surrender کرنے پہ مجبور کر دیتا ہے.کہنا یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے لئیے ہاتھ بلند کرنے کا اک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے بندہ نے مولا کی بارگاہ میں SURRENDER کر دیا ہے...وہ اک سجدہ جسے گراں سمجھتا ہے تو ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات...